وری کہانی میں فہمیدہ اور سرمہ کو علاحدہ نہیں کر سکتے۔ آہستہ آہستہ کہانی المناکی کو نمایاں کرتی ہے۔ مرکزی کردار کے تخیل (imagination) اور احساس (Feeling) کے ذریعہ فنکار نے باطن یا سائیکی میں اُتر نے کی کوشش کی ہے۔ فہمیدہ سرمہ پسند کرتی ہے، اس کے احساس جمال کا تقاضا ہے کہ گورے چہرے کے حسن میں اضافہ کر نے کے لیے آنکھوں میں سرمے کی سیاہی ضروری ہے، شادی ہوتی ہے تو اپنی ماں سے چاندی کی سرمہ دانی بھی لیتی ہے۔ اس کا خاوند جب پہلی بار ہم کلام ہوتا ہے تو دیکھتا ہے اس کی بیوی کی آنکھوں میں سیاہیاں تیر رہی ہیں۔ ’’اس کے خاوند نے پوچھا ’’یہ تم اتنا سرمہ کیوں لگاتی ہو؟‘‘ وہ جھینپ گئی اور جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کے خاوند کو اس کی ادا پسند آئی اور وہ اس سے لپٹ گیا، فہمیدہ کی سرمہ بھری آنکھوں سے ٹپ ٹپ کالے کالے آنسو بہنے لگے۔ اس کا خاوند پریشان ہو گیا‘‘ تم رو کیوں رہی ہو؟‘‘ فہمیدہ بات ٹال جاتی ہے، اس کے بعد سرمہ لگانا چھوڑ دیتی ہے لیکن بار بار چاندی کی سرمہ دانی اور چاندی کا سرمچو نکال کر دیکھتی ہے۔ سوچتی ہے یہ دونوں اس کی زندگی سے کیوں خارج ہو گئی ہیں وہ کیوں اس کو اپنی آنکھوں میں جگہ نہیں دے سکتی! صرف اس لیے کہ اس کی شادی ہو گئی ہے، صرف اس لیے کہ وہ کسی کی ملکیت ہو گئی ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کی قوت ارادی سلب ہو گئی ہو وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی ہے۔ ایک برس بعد ایک بیٹے کی ماں بن جاتی ہے۔ اپنی تخلیق پر خوش ہے۔ چالیس دنوں کے بعد سرمہ نکالتی ہے اور اپنے نومولود بیٹے کی آنکھوں میں لگاتی ہے۔ لڑکے کی بڑی بڑی آنکھوں میں سرمے کی تحریر ہوتی ہے تو وہ اور بڑی نظر آنے لگتی ہیں، ایسا کرتے ہوئے اسے نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ بچہ مر جاتا ہے تو فہمیدہ پاگل سی ہو جاتی ہے، ایک پاگل عورت سامنے ہے کہ جس کے تحت الشعور میں سرمہ اور سرمہ دانی موجود ہے۔ ’’اس کے ہوش و حواس گم ہو گئے تھے وہ کوئلے اٹھاتی، انھیں پیستی اور پھر اپنے چہرے پر کالک ملنی شروع کر دیتی۔‘‘ فہمیدہ کے دل و دماغ میں بس سرمہ ہی سرمہ ہے وہ ہر بات کالک کے ساتھ سوچتی ہے، اس کا خاوند پوچھتا ہے ’’کیا بات ہے تم اتنی افسردہ کیوں رہتی ہو‘‘ جواب دیتی ہے ’’جی کوئی خاص بات نہیں بس سرمہ ختم ہو گیا ہے۔ مجھے سرمہ لا دیجیے‘‘ اس کا خاوند سرمہ لاتا ہے تو اسے پسند نہیں آتا، خود بازار سے سرمہ لے آتی ہے،آنکھوں میں سرمہ لگا کر سو جاتی ہے صبح جب اس کا خاوند اسے اٹھانا چاہتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہ مردہ ہے اس کے پہلو میں ایک گڑیا ہے جس کی آنکھیں سرمے سے بھری ہوئی ہیں وہ سرمہ بھری آنکھوں سے ٹکر ٹکر دیکھ رہی ہے سب کو گھور رہی ہے۔ منٹو نے فہمیدہ کے تحت الشعور میں اُتر نے کی کوشش کی ہے، سرمہ لگاتے رہنے کی خواہش خاوند کے ایک بار ٹوکنے پر تحت الشعور میں بیٹھ جاتی ہے۔ شادی کے بعد وہ بڑی شدت سے محسوس کرتی ہے کہ عورت شوہر کے سامنے بے بس ہے شوہر کی خواہش کے سامنے اس کی آرزو کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیا صرف اس لیے سرمہ نہیں لگا سکتی کہ اس کی شادی ہو چکی ہے اور وہ اب کسی کی ملکیت ہو گئی ہے بظاہر اس کی قوت ارادی سلب ہو گئی ہے لیکن تحت الشعور میں وہی آرزو اپنی تو انائی لیے موجود ہے، مختلف طریقے سے اس تو انائی کا اظہار ہوتا ہے، کبھی بیٹے کی آنکھوں میں سرمہ لگا کر، کبھی خود اپنے منہ پر کالک لگا کر اور کبھی گڑیا کی آنکھوں میں سرمہ لگا کر! سرمے سے بھری آنکھیں لیے یہ گڑیا فہمیدہ ہی کا پیکر ہے جو تحت الشعور سے اُبھرا ہے۔ منٹو کا یہ امیج سرگوشیاں کرتا رہے گا۔ فہمیدہ کی ’سائیکی‘ کی کیفیت اور اس کی نفسیات کی گہری پر چھائیں باہر سرمہ بھری آنکھیں لیے ایک گڑیا کی صورت نمودار ہو گئی ہے! اس کہانی میں گورے چہرے پر سرمہ بھری آنکھیں فہمیدہ کے اپنے گہرے احساس جمال کی تصویر ہے۔ یہ جمالیاتی پیکر مرکزی کردار کے تصور جمال کا آئینہ ہے۔ یہ روح کا حسن ہے۔ Beauty of the soul جو خارج میں ایک پُر اسرار جمالیاتی نقش بھی بن گیا ہے۔ باطن میں اسی کردار کا جو نفسیاتی زوال (Psychological Fall) ہوتا ہے۔ اس سے کہانی کی ٹریجیڈی نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہے اور سرمے سے بھری گڑیا کی آنکھیں اس ٹریجیڈی کا حسن بن جاتی ہیں۔ ٹریجیڈی کی جمالیات میں یہ کہانی اس لیے بھی اہمیت اختیار کر لیتی ہے کہ گڑیا کا جمالیاتی پیکر سائیکی سے اُچھل کر سامنے آ جاتا ہے غالباً اس بات کی تصدیق کے لیے کہ : The World will be saved by Beauty. حسن ہی سے دنیا کا تحفظ ہو گا، حسن اور اظہار حسن ہی سے دنیا کی حفاظت ہو گی۔ خوبصورت چہرے پر سرمے سے بھری آنکھیں لاشعوری طور پر حسن عطا کر نے میں پیش پیش ہیں منٹو اس افسانے کے ذریعہ باطن کے داخلی حسن کے معبد (Temple of Inner Beauty) میں داخل ہوتے ہیں اور ٹریجیڈی کی جمالیات کے اک پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ہندوستانی جمالیات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ دونوں افسانے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ اور ’سرمہ‘ ادبھت رس (Adbhuta Rasa) لیے ہوئے ہیں دونوں افسانوں میں تحیّر کی جمالیات (Aesthetics of Wonder) گہرے طور پر متاثر کرتی ہے، قاری میں تحیّر کا جذبہ بیدار ہوتا ہے جس سے تحیّر آمیز مسرت (Surprised delight) پیدا ہوتی ہے۔ منٹو ٹریجیڈی کے آرٹ میں ’ادبھت رس‘ یعنی تحیّر کے جمال اور اس کی لذت پیدا کرنا خوب جانتے ہیں انھوں نے تو اپنے المیہ افسانوں میں تحیّر کے رس اور حیرت کے جمال کو فن کی روح بنا دیا ہے جس سے قاری کو جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ کہانی سرمہ میں اُداسی اور خوف دونوں کا گہرا اثر ہوتا ہے اس لیے کہ تحیّر کا جمال موجود ہے۔ تاریکی میں انبساط کی جو ہلکی چمک دکھائی دینے لگتی ہے اس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اسی طرح ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں ’ادبھت رس‘ اور شانت رس (Santa Rasa) دونوں کی ہم آہنگی ایسی ہے کہ تحیّر کے جمال کے ساتھ ہی ایک فلک شگاف چیخ کے بعد گہری خاموشی کا احساس ہوتا ہے اور ایسی گہری خاموشی میں نفسیاتی جذباتی سکون کے پیدا ہوتے ہی انبساط (Pleasure) کی لہریں جنم لینے لگتی ہیں ’’اچھا ہوا جو ٹوبہ ٹیک سنگھ مرگیا ورنہ عمر بھر۔۔۔‘‘ تخلیقی فن کی بہتر پہچان تازگی (Fre اور اجنبیت سے ہوتی ہے کہ جس سے تحیّر کا جمال وجود میں آتا ہے اور متاثر کرتا ہے۔ حضرات! ٹریجیڈی کی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ’ادبھت رس‘ اور ’شانت رس‘ کی ہم آہنگی کی ایک عمدہ مثال منٹو کی کہانی ’ہتک‘ میں ملتی ہے۔ ’ہتک‘ کو اُردو فکشن میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے، اس کہانی میں مرکزی کردار سوگندھی کے باطن کا درد و کرب ٹریجیڈی اور اس کے جمال کو نمایاں کرتا ہے، منٹو نے اپنی پیاس اپنے باطنی کرب کے ساتھ ہمیں اس طرح دی ہے کہ ہم اپنی پیاس اور اپنے درد کے تئیں زیادہ بیدار اور آگاہ ہو جاتے ہیں۔ ’ہتک‘ کی سوگندھی طوائف ہے کہ جس نے زندگی کا رقص دیکھا ہی نہیں، زندگی اس کے لیے کبھی جشن بنی ہوئی ہیں، گاہک آتے ہیں اس کی ہڈیاں اور پسلیاں جھنجھوڑ کر چلے جاتے ہیں، پانچ برسوں سے یہی ہو رہا ہے، دس روپے اس کا عام نرخ ہے جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلالی کے کاٹ لیتا ہے، اسے ساڑھے سات روپے روز مل جاتے ہیں جنھیں سوگندھی اپنی اکیلی جان کے لیے کافی سمجھتی ہے ایک نام نہاد عاشق مادھو پونے سے آ جاتا ہے اور اس پر دھاوا بول کر دس پندرہ روپے وصول کر لیتا ہے۔ سوگندھی کی کھولی میں چار تصویریں فریم میں لگی ہوئی ہیں ان میں ایک مادھو کی بھی ہے۔ اپنی میکانیکی زندگی میں وہ مادھو کو پسند بھی کرتی ہے اس لیے کہ وہ جب بھی آتا ہے اپنی باتوں سے متاثر کر نے کی کوشش کرتا ہے، سوگندھی جانتی ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے پھر بھی اس کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ سپاٹ اور بار بار خود کو دہراتی ہوئی اس زندگی میں چند لمحوں کا یہ گریز اچھا لگتا ہے۔ ایک رات دو بجے جبکہ وہ تھکی ماندی پڑی ہے رام لال دلال آتا ہے، وہ ایک گاہک لے کر آیا ہے جو نیچے اس کا انتظار کر رہا ہے۔ ساڑھے سات روپے کا سودا ہے، یہ سوچ کر کہ وہ یہ روپے اسی عورت کو دے دے گی کہ جس کا خاوند موٹر کے نیچے آ کر مرگیا ہے اور جو اپنی جوان لڑکی کے ساتھ وطن جانا چاہتی ہے۔ وہ رام لال کے ساتھ نیچے آتی ہے، جب گاہک ٹارچ جلا کر اسے دیکھتا ہے تو سوگندھی اس کے منہ سے صرف یہ سنتی ہے ’ہونہہ‘ گاہک اپنی کار پر اسی طرح بیٹھا چلا جاتا ہے۔ یہ لفظ ’اونہہ‘ اس کے کانوں میں بھنبھنانے لگتا ہے۔ اس نے اسے پسند نہیں کیا، تلملا جاتی ہے، اس کا ردِّ عمل کئی صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ چونکہ اس ’اونہہ‘ سے اس کا پورا وجود اس کی نفسیات اس کے احساسات اور جذبات سب میں ہلچل سی آ جاتی ہے اس لیے ہم کئی سطحوں پر اس کے نفسیاتی ردِّ عمل کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ سیٹھ سے انتقام لینے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے لیکن یہ المیہ کردار مجبور ہے۔ ایک ایک کر کے چاروں تصویروں کو توڑتی ہے اور مادھو کے سامنے اس تصویر کو بھی جو مادھو کی ہے، مادھو کو لتاڑتی ہے، مادھو کے جملوں کو دُہرا کر اسے ذلیل کرتی ہے اور اسے نکال دیتی ہے پھر ایک سنّاٹا سا چھا جاتا ہے ایسا سناٹا اس نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا، اس المیہ کردار کو محسوس ہوتا ہے جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافر اُتار کر اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے! یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہو گیا ہے اسے بہت تکلیف اور اذیت دے رہا ہے بہت دیر تک بید کی کرسی پر بیٹھی رہتی ہے پھر اُٹھ کر اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں لیے پلنگ پر آتی ہے اور اسے پہلو میں لٹا کر سوجاتی ہے۔ منٹو نے سوگندھی کی زندگی کی پیاس ہمیں دے دی ہے، قاری کے درد کو اور بڑھا دیا ہے۔ ’ادبھت رس‘ اور ’شانت رس‘ کی ہم آہنگی کی ایک ایسی تصویر اُبھرتی ہے جو ٹریجیڈی کے ارتعاشات لیے قاری کے احساس اور جذبے سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے معلّم جمالیات بھرت نے جن بھوؤں کا ذکر کیا ہے ان میں ’ویسمیں بھاؤ‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس بنیادی احساس میں حیرت اور تحیّر کے ساتھ باطن کی کپکی کا ذکر ہے۔ کہانی کے آخر میں خاموشی اور سنّاٹے کا جو احساس پیدا کیا گیا ہے اس سے شانت رس کی پہچان ہوتی ہے، قاری ٹریجیڈی سے بھی متاثر ہوتا ہے ساتھ ہی اسے میلوڈی آف پیتھوس کے ارتعاشات بھی ملنے لگتے ہیں۔ ’ہتک‘ کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ اس میں ماحول اور فرد کے تجربوں کی وجہ سے بڑے عمدہ آہنگ پیدا ہو گئے ہیں، نفسیات کی مختلف سطحوں نے ان خوبصورت آہنگ کو اور محسوس بنا دیا ہے سوگندھی زندگی کے المیہ کا خود جواب بن گئی ہے اور اس طرح المیہ اور گہرائی میں اُتر نے لگا ہے۔ اس گہرائی میں تشنگی کا اور احساس ہوتا ہے درد اور بڑھا محسوس ہوتا ہے اندر بڑی گہرائیوں میں ٹریجیڈی کی تاریکی میں سوگندھی کا وہ اضطراب ہے جو پیاس اور درد کی شدت کا نتیجہ ہے۔ اس افسانے کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ جہنم میں رہتے ہوئے بھی سوگندھی دل کی گہرائیوں میں محبت اور انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کا چراغ روشن کیے ہوئی ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے دکھاوا نہیں ہے۔ اس کے چہرے پر کوئی ماسک نہیں ہے۔ زندگی میں خلا ہے زندگی کھوکھلی ہے، زندگی کا رس نہیں ملا ہے بڑی تشنگی ہے، درد بار بار بڑھتا ہے، زندگی کا سفر اذیت ناک بنتا رہتا ہے لیکن وہ زندہ ہے، جس رنگ میں رنگ گئی ہے اس رنگ کے ساتھ۔۔۔ یہ اس ٹریجیڈی کا حسن ہے جس سے نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ ٹریجیڈی کا جواب کبھی اس طرح ملتا ہے کہ فریب کھاتے ہوئے لذت ملتی ہے کبھی اس طرح کہ مردوں کے اندر جذب ہونا چاہتی ہے خود مردوں کو پگھلا کر اپنے اندر جذب کر لینا چاہتی ہے، کبھی حسن کے احساس کو بڑھا کر اور کبھی ان مردوں کی تصویریں توڑ کر کہ جن سے وہ جذباتی طور پر وابستہ رہی ہے، کبھی تیر کھائے زخمی پرندے کی طرح تڑپ کر کبھی انتقام کے جذبۂ آتش کو روشن کر کے، یہ سب پہلو یہ حیثیتیں اس کردار کے جلوے ہیں ان سے افسانے کی تخلیقی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ ایک ’ہونہہ‘ سے کہانی کی ٹریجیڈی کی شدت حد درجہ بڑھ جاتی ہے، فنکار مسلسل اپنی اور اپنے المیہ کردار کی تشنگی دیتا جاتا ہے، درد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، المیہ کردار میں انانیت سر اٹھاتی ہے اور لہرانے لگتی ہے، تیز جذباتی، آتشیں اٹھان ہے جو ذات پر پڑی چوٹ کے شدید ردِّ عمل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ’اونہہ‘ کا تیر کلیجے میں پیوست ہے اور یہ اسی کا ردِّ عمل ہے لیکن یہ جذباتی آتشیں اٹھان کمزوری او مجبوری کو چھپا نہیں سکتی، المیہ کردار کا یہ نصیب ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی لہراتی ہوئی انانیت کے ساتھ اٹھے اور پھر ڈھیر ہو جائے۔ تخیل میں مخالف کردار کے پیکر مختلف صورتوں میں تشکیل دے، تصادم اور کشمکش کی ایک فضا بن جائے، تحت الشعور اور لاشعور تک بات پہنچ جائے لیکن شکست اور زوال اس کا نصیب بن جائے۔ منٹو نے سوگندھی کے ذہنی کرب اور ذہنی اور جذباتی تصادم کی عمدہ تصویریں پیش کی ہیں۔ المیہ کردار کی کمزوری اور مجبوری کو بھی نمایاں کیا ہے، لہراتی ہوئی انانیت کا نقش بھی اُبھارا ہے اور زوال اور شکست اور احساس شکست کے نقوش بھی اُجاگر کیے ہیں۔ اس المیہ کردار نے تخیل میں وحشی بِلی بن کر اندھا دھند اپنے پنجوں سے اس شخص کا منہ نوچنا شروع کر دیا ہے کہ جس کے ایک ’ہونہہ‘ سے وہ تلملا گئی تھی لیکن تھک جاتی ہے، مجبور اور کمزور جو ہے، کردار کی شکست جو ہوتی ہے اس لیے کہ سچائی کچھ اور ہے۔ اس کی سائیکی، المناک تجربے کا جواب دیتی ہے۔ اس کا نفسیاتی ردِّ عمل توجہ طلب ہے۔ آخر میں سوگندھی اپنے خارش زدہ کتّے کو گود میں اٹھاتی ہے اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر پہلو میں لٹا کر سوجاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ المیہ کردار سبز طوطے کی طرح پنجرے میں بند ہو گیا ہے اپنی گردن بالوں میں چھپائے ہوئے۔۔۔ اور ہمیں آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ اچانک لگتا ہے جیسے سوگندھی کی جو آواز گونج رہی تھی اس کی بازگشت تو موجود ہے لیکن آواز نہیں ہے کا عجیب پُر اسرار معنی خیز تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جس کی وضاحت آسان نہیں ہے۔ حضرات! سعادت حسن منٹو ’سائیکو ڈرامے ‘ کے ایک بڑے فنکار ہیں وہ انکشافِ ذات سے کم و بیش اسی طرح دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں کہ جس طرح نفسیات کا کوئی عالم فرد کے خوابوں سے دلچسپی لیتے ہوئے اس کی ذات یا شخصیت کا تجزیہ کر نے لگتا ہے۔ منٹو کی ہر اچھی کہانی جو ٹریجیڈی اور اس کی جمالیات کو پیش کرتی ہے انکشاف ذات کرتی ہے۔ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘، ’سرمہ‘، ’بابو گوپی ناتھ‘، ’ہتک‘، ’ممّی‘، ’موذیل‘، ’خوشیا‘، ’شاہ دولے کا چوہا‘، ’ٹھنڈا گوشت‘، ’ممد بھائی‘، ’اس منجھدار میں ‘ وغیرہ عمدہ مثالیں ہیں۔ بابو گوپی ناتھ پڑھتے ہوئے بڑی شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ وقت اور لمحوں میں زندگی بسر کر نے والا اور مسلسل تلخ اور شیریں اور لذّت آمیز تجربے حاصل کر نے والا شخص ایک پاکیزہ روح رکھتا ہے پر یقین سا آ جاتا ہے، بابو گوپی ناتھ اور ان کی روح کو ٹٹولنے والے سعادت حسن منٹو ایک ایسے ’سائیکو ڈرامے ‘ کو خلق کر دیتے ہیں کہ ٹریجیڈی کا جمال اُبھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ مرکزی کردار نفسیاتی سطح پر اذیت اور درد کو سنبھالے نفسیاتی سکون کی خاطر جس طرح مسرت اور انبساط کو نمایاں کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں دُکھی نہیں ہوں، میں مسرور ہوں خوش ہوں، اس کا المیہ بہت ہی گہرا نقش قائم کر دیتا ہے۔ کہانی کے آخر میں جو جمالیاتی مظہر اُبھرا ہے وہ جمالیاتی آسودگی عطا کرتا ہے۔ باطنی سطح پر المیہ کردار کا ایسا زوال ان کی کسی اور کہانی میں نہیں ہے جس سے ’کتھارسس‘ ہو اور جمالیاتی سکون ملے۔ بابو گوپی ناتھ ایک کنجوس بنئے کے بیٹے ہیں، باپ کی موت کے بعد جو دس لاکھ کی جائیداد ملتی ہے اس سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں، پچاس ہزار روپے لے کر بمبئی آتے ہیں اور عیاشی کو زندگی کا مقصد تصور کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ زینت کو لے آئے ہیں جسے پیار سے زینو کہتے ہیں مصاحب گھیرے رہتے ہیں تو انھیں راحت ملتی ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب جونک ہیں اپنے پیسے لٹاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں مجھے ان سے محبت سی ہو گئی ہے۔ سوچ رکھا ہے جب میری دولت ختم ہو جائے گی تو کسی تکیے میں جا بیٹھوں گا رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے، رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا اس لیے کہ جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں کسی ایک کے مزار پر چلا جاؤں گا، طوائف کے کوٹھے اور تکیے دونوں کو پہچانتے ہیں۔ ’’دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے اس کے لیے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ بابو گوپی ناتھ ایک پختہ تجربے کا نام ہے۔ گوپی ناتھ زینت کو بے حد چاہتے ہیں۔ اپنی زینو کے ان کے دل میں احترام بھی ہے، دو برس سے زینت ان کے پاس ہے دوسری عورتوں کے پاس ہفتوں پڑے رہتے ہیں لیکن زینت کوئی شکایت نہیں کرتی، بابو گوپی ناتھ کی بے چینی کا سبب یہ ہے کہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر نے کے بعد زینت کا کیا ہو گا۔ اب تو روپئے بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں چاہتے ہیں زینت کسی اور کو پھانس لے، اپنے پاؤں پر کھڑی تو ہو جائے گی اسے اپنی آرزو کا اظہار کرتے ہوئے دس ہزار دینے کو تیار ہیں کتنا اچھا ہو ان کی زینو بمبئی میں کسی دولت مند شخص کی داشتہ بن جائے،روپئے اینٹھنے کا گُر جان لے آخر وہ کیسے رہے گی، اس خبر سے خوش ہو جاتے ہیں کہ حیدر آباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ان کی زینو سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے بنوا دیتے ہیں، پانچ ہزار نقد دیتے ہیں ان کی زینو کی شادی ہو جاتی ہے۔ زینت دلہن بنی ہوئی ہے اس کے سر پر شفقت اور محبت سے ہاتھ رکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ بابو گوپی ناتھ ریاکار اور عیّار نہیں ہیں جذباتی ہیں، خلوص کا پیکر ہیں۔ زینت سے ان کا رشتہ درد کا رشتہ ہے، زینت عرصہ تک ان کی داشتہ رہتی ہے، اس سچائی کے باوجود گوپی ناتھ اس کی شادی اس طرح کرتے ہیں جیسے باپ بیٹی کی شادی کرتا ہے، بظاہر کسی قسم کا کوئی تناؤ نہیں ہے۔ ایک سکون سا ہے، ایک بڑی آرزو پوری ہوتی ہے، زینت کا گھر بسا دیتے ہیں آخر میں انکشاف ذات ہوتا ہے جس سے اس المیہ افسانے کا حسن نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس ’سائیکو ڈرامے ‘ کا اختتام باطنی اضطراب اور خارجی سطح پر سکون اور راحت کے پیش نظر ایک نقش قائم کر دیتا ہے۔ زینت کے تعلق سے بابو گوپی ناتھ ایک باطنی کرب میں مبتلا رہتے ہیں، جذبات کا تصادم ایسا ہے کہ اس کا احساس ہوتا ہے۔ یہ تصادم سامنے نہیں آتا لیکن زینت کے ساتھ درد کا جو رشتہ ہے اس سے اندرونی سچائی کی پہچان ہو جاتی ہے۔ جب زینت کی شادی ہوتی ہے تو بابو گوپی ناتھ کی ’کتھارسس‘ ہوتی ہے سکون ملتا ہے آسودگی حاصل ہوتی ہے لیکن ہم انسان کی نفسیات کے پیش نظر اُس کیفیت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے جو بابو صاحب کے سینے کے اندر گہرائیوں میں ہے ’’وہ اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں کو لیے چلے جاتے ہیں۔‘‘ اس ایک جملے سے باطن کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے لگتا ہے جیسے خاموشی کی اس گہری اُداس کی وجہ سے پوری کہانی کہی نہیں گئی ہے خاموشی کی اس گہری اُداسی اور بھیگی ہوئی آنکھوں کی وجہ سے غالباً پوری کہانی کہی نہیں جا سکتی ہے۔ جب بابو گوپی ناتھ اپنی بھیگی آنکھوں کے ساتھ چلے جاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ خوشبو سے رشتہ ٹوٹا نہیں ہے، کہانی ختم ہونے کے بعد بھی قاری کا ذہن اس رشتے کی خوشبو کے ساتھ ہوتا ہے۔ بابو گوپی ناتھ کے عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں : I یکن آنکھوں میں آنسو کے چمکتے قطرے جذبے کو زبان دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اختتام پر اس ٹریجیڈی کا جمال توجہ طلب بن جاتا ہے! حضرات! ’’موذیل سعادت حسن منٹو کی ایک عمدہ تخلیق ہے‘‘ منٹو کے اکثر کردار اچانک تاریکی سے باہر نکلتے ہیں اور اپنی شعاعوں سے تجربوں کو چمکا دیتے ہیں۔ ایسے کرداروں سے گہرائی اوپر آتی محسوس ہوتی ہے مٹّی کی خوشبو لیے ہوئے۔ ’موذیل کی زندگی میں اس کے عمل اور ردِّ عمل اور اس کی گفتگو وغیرہ سے اس کا کردار مختلف نظر آتا ہے۔ طرزِ زندگی اور طرزِ گفتگو سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کبھی ایک رحمت بن کر ٹپک سکتی ہے۔ موذیل ایک نغمہ ہے جو زندگی اور وجود کے آہنگ اور فن کار کے مشاہدے اور اس کی شفّاف بصیرت کی وحدت سے خلق ہوا ہے۔ ’ہیومنزم‘ جو محبت ہی کی انتہائی دلکش اور بے پناہ صورت ہے باطن کی گہرائیوں میں رہتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اس کی پہچان فوراً ہو جائے۔ ظاہری صورت ہر دم ایسی نہیں ہو گی کہ اس کی دلکشی کو پالیں یا اس کی بے پناہ خوشبوؤں کو محسوس کر لیں۔ اس میں تاریکی کی خصوصیت شامل ہوتی ہے اس لیے کہ یہ بڑی گہرائیوں میں ہوتی ہے، تاریکی ہمیشہ گہری ہوتی ہے جب بھی اس کا عمل ظاہر ہوتا ہے م?%